شبِ وصال کی ضد ہے کہ جا نہیں آتی || یہ خوش خرام , بہ فرشِ عزا نہیں آتی || دیے خلا میں جلانے کا فائدہ یہ ہے دیے بجھانے یہاں پر ہوا نہیں آتی


 

شبِ وصال کی ضد ہے کہ جا نہیں آتی

یہ خوش خرام , بہ فرشِ عزا نہیں آتی

 

تمھارا چین بھی غارت ہے آسماں ہو کر

ہمیں بھی راس زمیں کی فضا نہیں آتی

 

نکل کے دل سے جو فورا" قبول ہو جائے

مجھے تو کوئی بھی ایسی دعا نہیں آتی

 

دیے خلا میں جلانے کا فائدہ یہ ہے

دیے بجھانے یہاں پر ہوا نہیں آتی

 

کسی کی آہ و بکا پر خدا نہیں آتا

کسی کی چیخ پہ خلق خدا نہیں آتی

 

خالد ندیم شانی

آنکھوں میں رہا، دل میں اُتر کر نہیں دیکھا || کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا ||بشیر بدر کی شاعری

 

آنکھوں میں رہا، دل میں اُتر کر نہیں دیکھا

کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

 

بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے

اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا

 

جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے

آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

 

یہ پھُول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں

تم نے مر ا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

 

یاروں کی مُحبت کا یقیں کر لیا میں نے

پھُولوں میں چھُپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا

 

محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں

جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا

 

خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں

وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا

 

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا ۔

میں موم ہوں اُس نے مجھے چھُو کر نہیں دیکھا ۔

 

بشیر بدر


خاک اُڑتی ہے رات بھر مُجھ میں || کون پھرتا ہے در بدر مُجھ میں || رحمان فارس


 

خاک اُڑتی ہے رات بھر مُجھ میں

کون پھرتا ہے در بدر مُجھ میں

 

مُجھ کو خود میں جگہ نہیں مِلتی

تُو ہے موجود اِس قدر مُجھ میں

 

موسمِ گِریہ ! اِک گُذارش ہے !

غم کے پکنے تلک ٹھہر مُجھ میں

 

بےگھری اب مرا مُقدر ہے !

عشق نے کرلیا ہے گھر مُجھ میں

 

آپ کا دھیان خُون کے مانند

دوڑتا ہے اِدھر اُدھر مُجھ میں

 

حوصلہ ہو تو بات بن جائے

حوصلہ ہی نہیں مگر مُجھ میں ...!!

 

رحمان فارس

واسطہ حُسن سے یا شدتِ جذبات سے کیا || پیاس دیکھوں یا کروں فکر کہ گھر کچا ہے || سوچ میں ہوں کہ میرا رشتہ ہے برسات سے کیا


 

واسطہ حُسن سے یا شدتِ جذبات سے کیا

عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا

 

میری مصرُوفیتیں اُس کو کہاں روک سکیں

وھ تو یاد آئے گا اُس کو میرے دن رات سے کیا

 

پیاس دیکھوں یا کروں فکر کہ گھر کچا ہے

سوچ میں ہوں کہ میرا رشتہ ہے برسات سے کیا

 

میں تو کہتا رہا مٹ جائیگا تو بھی اک دن

میرے قاتل کو مگر میرے خیالات سے کیا

 

اک اثاثہ ہوا کر تے ہیں نقوشِ ماضی

تجھ کو لگتا نہیں بوسیدہ عمارات سے کیا؟

 

جس کو خدشہ ہو کہ مر جائیں گے بچے بھوکے

سوچئے! اُس کو کسی اور کے حالات سے کیا

 

آج اُسے فکر کہ کیا لوگ کہیں گے طاہر

کل جو کہتا تھا مجھے رسم و روایات سے کیا

 

(احمد بشیر طاہر)

نیند تو میں کما کے لاتا ہوں||خواب لیکن چرا کے لاتا ہوں|| تم شجر کو ذرا دلاسہ دو || میں پرندے بلا کے لاتا ہوں


 

 

نیند تو میں کما کے لاتا ہوں

خواب لیکن چرا کے لاتا ہوں

 

تم شجر کو ذرا دلاسہ دو

میں پرندے بلا کے لاتا ہوں

 

مجھ کو مجھ بن کہیں نہیں ہے قرار

شہر سارا گھما کے لاتا ہوں

 

راستہ جگنوؤں کا عادی ہے

میں دیے کو بجھا کے لاتا ہوں

 

عکس کے آگ میں اترنے تک

آئنے میں سجا کے لاتا ہوں

 

لے تو آتا ہوں دشت آنکھوں میں

پانیوں کو دکھا کے لاتا ہوں

 

پھل کی قسمت ہے پک کے گر جانا

اور میں ٹہنی ہلا کے لاتا ہوں

 

آپ کیوں تیرگی سے لڑتے ہیں؟

روشنی کو منا کے لاتا ہوں

 

آگ لاتا ہوں مانگ کر لیکن

اپنا قصہ سنا کے لاتا ہوں

 

ارشد نیازی

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی || پھر درد اٹھا دل میں پھر یاد تری آئی || صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

 

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی

دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

 

اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی

سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی

 

یہ رات کی خاموشی یہ عالمِ تنہائی

پھر درد اٹھا دل میں پھر یاد تری آئی

 

اس عالم ویراں میں کیا انجمن آرائی

دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی

 

اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے

ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی

 

ہر دردِ محبت سے الجھا ہے غمِ ہستی

کیاکیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی

 

چرکے وہ دیے دل کو محرومئ قسمت نے

اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی

 

جلووں کے تمنائی جلووں کو ترستے ہیں

تسکین کو روئیں گےجلووں کے تمنائی

 

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

 

دنیا ہی فقط میری حالت پہ نہیں چونکی

کچھ تیری بھی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی

 

اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے

بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی

 

افسونِ تمنا سے بیدار ہوئی آخر

کچھ حسن میں بے باک کچھ عشق میں زیبائی

 

وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے

تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی

 

آنکھوں نے سمیٹے ہیں نظروں میں ترے جلوے

پھر بھی دلِ مضطر نے تسکین نہیں پائی

 

سمٹی ہوئی آہوں میں جو آگ سلگتی تھی

بہتے ہوئے اشکوں نے وہ آگ بھی بھڑکائی

 

یہ بزمِ محبت ہے اس بزمِ محبت میں

دیوانے بھی شیدائی فرزانے بھی شیدائی

 

پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں

جس سمت نظر اٹھی آواز تری آئی

 

اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ

اک گوشہء خلوت میں یہ دشت پنہائی

 

ان مد بھر آنکھوں میں کیا سحر تبسم تھا

نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی

 

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم


فرطِ حیرت میں مبتلا رہا ہوں || کہیں کھوٹا کہیں کھرا رہا ہوں


 

فرطِ حیرت میں مبتلا رہا ہوں

یعنی میں خواب دیکھتا رہا ہوں

 

ایک چہرہ ہے میری آنکھوں میں

جس کو دیوار پر بنا رہا ہوں

 

میں تری چال سب سمجھتا ہوں

ناخدا میں بھی ناخدا رہا ہوں

 

میں نے اندر ہی کر لیا روشن

آسماں کا دیا بجھا رہا ہوں

 

ایسے پیوند ہیں لگے مجھ میں

جیسے مجذوب کی قبا رہا ہوں

 

میں کہیں خاص ہوں کہیں پر عام

کہیں کھوٹا کہیں کھرا رہا ہوں

 

دانش حیات