نیند تو میں کما کے لاتا ہوں
خواب لیکن چرا کے لاتا ہوں
تم شجر کو ذرا دلاسہ دو
میں پرندے بلا کے لاتا ہوں
مجھ کو مجھ بن کہیں نہیں ہے قرار
شہر سارا گھما کے لاتا ہوں
راستہ جگنوؤں کا عادی ہے
میں دیے کو بجھا کے لاتا ہوں
عکس کے آگ میں اترنے تک
آئنے میں سجا کے لاتا ہوں
لے تو آتا ہوں دشت آنکھوں میں
پانیوں کو دکھا کے لاتا ہوں
پھل کی قسمت ہے پک کے گر جانا
اور میں ٹہنی ہلا کے لاتا ہوں
آپ کیوں تیرگی سے لڑتے ہیں؟
روشنی کو منا کے لاتا ہوں
آگ لاتا ہوں مانگ کر لیکن
اپنا قصہ سنا کے لاتا ہوں
ارشد نیازی
0 Post a Comment:
Post a Comment