آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظام عالم
آپ گزرے ہیں تو اک موجِ
رواں گزری ہے
گرچہ سو بارغمِ ہجر سے
جاں گزری ہے
مگر جو دل پہ گزرنی تھی
وہ کہاں گزری ہے
ہوش میں آئے تو بتلائے تیرا دیوانہ
دن کہاں گزرا ہے اور رات
کہاں گزری ہے
حشر کے بعد بھی دیوانے تیرے پوچھتے ہیں
وہ قیامت جو گزرنی تھی کہاں گزری ہے
0 Post a Comment:
Post a Comment