دل کے معاملات میں سود و
زیاں کی بات
ایسی ہے جیسے موسم ِگل میں
خزاں کی بات
اچھا وہ باغِ خلد جہاں رہ
چکے ہیں ہم
ہم سے ہی کر رہا ہے تو
زاہد وہاں کی بات
زاہد ترا کلام بھی ہے با
اثر مگر
پیرِ مغاں کی بات ہے پیرِمغاں کی بات
اک زخم تھا کہ وقت کے ہاتھوں سے بھر گیا
کیا پوچھتے ہیں آپ کسی مہرباں کے بات
ہر بات زلفِ یار کی مانند ہے دراز
جو بات چھیڑتے ہیں وہ ہے داستاں کی بات
اٹھ کر تری گلی سے کہاں
جائیں اب فقیر
تیری گلی کے ساتھ ہےاب
جسم وجاں کی بات
باتیں اِدھر اُدھر کی سنا کر جہان کو
وہ حذف کر گئے ہیں عدم ؔدرمیاں
کی بات
0 Post a Comment:
Post a Comment